Thursday, April 28, 2022

Ishq Ki Pehli Barish, Sama Chaudhary, Novel, عشق کی پہلی بارش, سماء چوھدری, ناول,

 Ishq Ki Pehli Barish, Sama Chaudhary, Novel, عشق کی پہلی بارش,  سماء چوھدری, ناول, 



صبح کی پہلی کرن جوں ہی خان حویلی کی در و دیوار کو پار کرتی اندر داخل ہوئی پتوں پہ چمکتی شبنم کو اور بھی

نکھار دیتی ہے" ہر گل مہک جاتا جب تازہ ہوا ہر پودے کو

چُھو کر جاتی ہے چاروں طرف ایک ناختم ہونے والی خوشبو پھیل جاتی ہے۔

 

"ہوا کا الگ نشہ ہوتا ہے جس میں یہ پھول پودے بھی اپنی ہوش کھو دیتے ہیں"  گل خان پودوں کو پانی دے رہا تھا، وہ اپنے دھیان اس خوبصورت منظر کو محسوس کر رہا تھا،

کہ اچانک شروع ہوئی چیخ و پکار پہ پائپ چھوڑ  کر حویلی کے گیٹ کی طرف بھاگتا ہے ۔

 

او خانہ خرابہ تو ہے ؟ ہم ڈر گیا ۔

گل خان اپنے دل پہ ہاتھ رکھے احمر  کو کہہ رہا تھا ۔

ابھی ہمارا  نازک دل باہر آ جاتا ۔۔۔۔  بچہ ایسے کام دوبارہ نہیں۔

 

گل خان ۔۔ کہاں رہ گئے تھے؟ یار گاڑی تو نکلو میں پہلے ہی لیٹ ہو گیا ہوں۔اب اور ٹائم لگا تو میرا نام  کٹ جائے گا جلدی چل یار۔ 

 

گل خان پاس آ تا ہے اور جلدی سے چابی نکل کر احمر کے ہاتھ پہ رکھ دیتا ہے۔

 

  یہ لو بابا خود چلے جاو۔۔۔ہم کو آ ج بہت کام کرنا ہے 

 

احمر کا منہ کھلے کا کھُلا رہ گیا،کیوں کہ اس کو گاڑی چلانی نہیں آ تی تھی،

 

گھر میں سب سے چھوٹا ہونے اور اپنے بڑے امی ابا کا لاڈلہ ہونے کی وجہ سے احمر کو انہوں نے کبھی ایسے کام کرنے ،ہی نہیں  دیا اس کا ہر کام گل خان کرتا تھا پھر وہ آ نا جانا ہی کیوں نا ہوں گل خان نوکر کم گھر کا فرد ذیادہ تھا بلکہ فرد خاص

 

او میرے گُل بھرے گلدان بلکہ گلستان یار نا کرو ایسے میرے ساتھ۔

 

چھوڑ آو نا مجھے ۔ ننھا  سا منہ بنا کر وہ گل خان کو

آوازیں دیتا رہ گیا پر گل خان تو کب کا جا چکا تھا۔

 

 

بڑی امی____ بڑی  امی کہاں ہو آ پ۔ احمر روتی صورت لے کر ہال میں داخل ہوا۔ 

  ہاں میرے لال بول کیا ہوا میرا احمر میرا بچہ 

میں کچن میں ہوں ادھر آجا۔

 

  بڑی امی  گل خان کو بولیں مجھے کالج چھوڑ آ ئے .

 

احمر دفعہ مار کالج کو آج تو اپنی بڑی امی سے ملا تک نہیں صبح سے راہ دیکھ رہی ہوں  یہاں آ ۔

 

شاہ بیگم اپنی گود میں لیے احمر خوب پیار کر رہی تھی۔

 

امی آپ اس موٹے کدو کے چآو کرتے رہنا کچھ کرنے نا دینا اس کو۔ ایک کالج جانا ہوتا اس نے اس پہ بھی پابندی لگا رکھی ہے ۔

 

عقبہ مجھ سے مار نا کھا لینا تم خبردار جو میرے بچے کے خلاف بولی تم ۔ 

 

ہاں ہاں۔۔ یہ ہی سب کچھ ہے ہم کو تو ڈاون لوڈ کیا تھا آ پ نے۔ عقبہ ناک چڈھاتے کچن سے باہر نکل جاتی ہے۔

 

  ہاں ہاں فضول  باتیں کروا لو اس لڑکی سے خود جیسے ساری حویلی کے کام کرتی ہے ملکہ بنی رہتی ہے۔ 

 

(عقبہ شاہ بیگم کی چھوٹی بیٹی اور جہان کی اکلوتی بہن تھی ۔شاہ بیگم کے دو ہی بچے تھے مگر یہ بھی سچ تھا کہ وہ احمر کو  اپنی اولاد سے ذیادہ عزیز رکھتی تھی)

 

بڑی امی کالج والوں نے میرا نام کاٹ دینا ہے۔۔ احمر 

  دکھی ہوتے کہہ رہا تھا ۔

سارے دوست میرا مذاق اڑاتے ہیں کہ کار تک چلانی نہیں آتی

اور بہن چھوڑنے آ تی ہے۔۔

مجھے  نہیی پتہ آ پ بولو گل خان کو مجھے کلاس دیا کرے۔۔

اچھا میں کہہ دوں گی جا ۔۔ جہان کو بول تجھے چھوڑ  آ ئے۔

 

نا نا میں نہیں جا رہا ان کے کمرے  میں۔ وہاں طوفان آ یا ہوا ہے 

کیوں کیا ہوا ؟؟  احمر نے ڈرتے بات چھپانے کی ناکام کوشش کی مگر  چہرے کے تاثرات سے پکڑا گیا ۔

 

جہان اور آبریش کی لڑائی ہوئی ہے ؟ ہیں __؟؟

ہیں۔۔ بول بھی یہ ہی نا بڑی امی آ پ ۔۔ کو کیسے پتہ ؟ 

شاہ بیگم زور دار قہقہہ لگاتی  جا کر ہال میں بیٹھ جاتی ہے۔

ارے یہ تو ان دونوں کی پیدائش سے چلتا آ رہا  ہے کوئی نئی بات تھوڑی ہے۔ 

 

جا احمر کپڑے بدل لے تیرا آ ج بھی کالج گیا اور سُن کوئی دوسرا کالج دیکھ لے کیوں کہ ان کالج والوں نے اب تیرا نام کاٹ دیا  سمجھ لے عقبہ  احمر کو چھڑ رہی ہوتی ہے۔۔

 

ہممم لگ تو یہ رہا ہے ۔

 

میرا بیچار بچہ! ان دونوں کے ظلم کا شکار بن جاتا ہے شاہ بیگم ابھی تک ہنس رہی تھی۔   آ ہاں امی ان کے ظلم  میں یا آ پ کے پیار میں ذرا سوچ لیں نا ایک بار 

عقبہ تو روک ذرا بتاتی ہوں تجھے  میں بتاتی ہوں۔

 

   بی بی صاحب  باہر افسوس کے لیے عورتیں آ ئی ہیں کہتی ہیں 

شاہ بیگم سے ملنا ہے بڑا  رو رہی ہیں بی بی صاحب ۔۔۔ مل لیں 

ایک بار۔

مائی دوپٹے کا ایک کونا منہ میں دبائے بڑے مدھم سے لہجے میں کہتی ہے۔

مائی ۔۔۔۔۔۔ (شاہ بیگم کی آ واز  میں  بہت طاقت تھی ۔

ایسی پرجوش اور بلند آواز کے خان حویلی  کے دور و دیوار ہل جاتے تھے جب وہ جلال میں ہوتی تھی)

 

مائی ڈر کے مارے  کانپتی  پاس آتی ہے ۔۔۔۔۔۔ احمر  سو گیا ؟ میرے پاس لے کر آ و اُسے ۔۔

 

بی بی صاحب ۔۔۔وہ ۔۔۔۔ شاہ بیگم کی آ نکھوں میں آ نسو ہوتے ہیں مگر وہ دیکھنا نہیں  چاہتی ۔۔۔۔۔۔ جاو احمر  کو لے کر آ و میرے  پاس سنا نہیں  تم نے ۔۔۔۔  بی بی صاحب احمر بابا کو تو بڑے صاحب ساتھ لے گئے ہیں۔۔۔ کہہ رہے تھے باہر جا رہا ہوں۔۔

 

تم نے جانے کیسے دیا ؟ مجھے بتایا کیوں نہیں  ۔۔ آ پ  سو گئی تھی. ڈاکٹر نے روکا تھا کہ اٹھنا نہیں  بی بی کو ۔۔۔  مائی تمام وضاحت دے کر واپس اپنی جگہ پہ کھڑی ہو گئی،

 

اچھا ۔۔۔ جاو تم ۔۔۔۔۔۔  جی باہر وہ عورتیں ۔ 

ان سے کہہ دو شاہ بیگم کے پاس کے سوالوں کا جواب نہیں ۔

اس حویلی کا ہر فرد زندہ ہے۔۔۔۔۔ ہر فرد ۔۔۔۔۔ !!

دروازے کو بند کے جانا ۔۔۔۔۔۔ مجھے خاموشی چایئے 

 

            

خالہ جان ۔۔۔ دیکھیں نا اس شان مان کان  نے میرے ہاتھ گندے کر دیے۔ میری چوڑیاں بھی توڑ  دی ۔ وہ بازو دیکھا رہی تھی،

 

امی میری کوئی غلطی نہیں ۔۔۔۔۔ یہ میرا نام کیوں ایسے لیتی ہے

جہان نام ہے میرا ۔ جہان حسن احمد خان،

 

شاہ بیگم ہنستے  آ بریش کو اپنی گود میں بیٹھا لیتی ہے ۔

میری پری کے ہاتھ کیوں خراب کیے بولو جہان ،

 

امی آپ بھی؟ ہر وقت اس کو پری پری اور مجھے جن بابا کہتی رہتی  ہیں ۔ میں آ پ  سے بات ہی نہیں  کروں گا ۔

 

جہان وہ پیار سے کہتی ہے کیا ہوگیا تمہیں ایسے بات نہیں کرتے  ۔۔۔۔۔۔۔۔  آ بریش  شاہ بیگم کی گود میں بیٹھیی جہان  کو انگلیاں دیکھا رہی ہوتی ہے،

 

ہاں اب آنا  میرے ساتھ کھیلنے، جہان منہ بنائے چلا جاتا ہے ۔

 

آبریش میری پری ۔ اب جہان آ پ سے بات نہیں کرے گا تو کس کے ساتھ مستی کرو گی ؟؟  خالہ ۔۔۔ نا ۔۔ تم مجھے بڑی ماما  کہا کرو یا جیسے جہان کہتا ہے نا امی ۔۔ ویسے کہا کرو۔۔۔ 

 

جاو شاباش  جا کے دوستی کرو اس سے ۔۔۔۔۔۔۔ ہممم آ بریش نا چاہتے بڑے برُے من سے شاہ بیگم  کی گود سے نکل کر ۔۔۔۔ جہان  کے کمرے کی طرف جاتی ہے ۔

 

جہان موڈ بنائے  اپنے کمرے کی کھڑکی میں کھڑا ہوتا ہے ۔

تم نے گر جانا ہے!  آ بریش آ تے ہی ایک نئی پیشن گوئی کرتی ہے ۔۔

تو تم کو کیا ۔۔ اس سے۔۔۔۔ جہان منہ دوسری طرف کرتے  کہتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ تم گر گئے میں کس کے ساتھ مستی کرو گی اور پھر مجھے تنگ کون کرے گا ؟

 

مصمومانہ انداز میں وہ اپنے مطلب کی سب باتیں کہہ گئی۔ جہان کے چہرے پہ بڑی سی مسکراہٹ آئی جو ایسے  ظالم لڑکی کہہ کے پھر گم ہوگئی،

 

چلو ہاتھ دو اب ۔۔۔۔۔  ورنہ پھر کہتے ہو میں تمہارا خیال

نہیں  رکھتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔جہان آ بریش کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دیتا ہے اور نیچے اتر آ تا ہے۔۔ دونوں اپنی موج میں۔۔۔ہر چیز بھول جاتے  تھے ۔۔

 

                                  ۔☆☆☆☆۔

 

خان حویلی  تو مانوں جیسے خالی ہو گئی ہو زمان بہادر احمد خان کی حیات میں لوگوں کا ایک بڑا ہجوم اس حویلی میں لگا رہتا تھا ۔

 

سفید ماربل سے بنی سبزہ زار اور رنگ برنگے پھولوں سے گھری اس وسیع و عریض رقبے پہ قائم خان حویلی ہر ایک کی توجہ کا مرکز تھی جتنی کشش بیرونی حصے کی تھی ،اس سے کئی گنا زیادہ اس کی طرز تعمیر اور حویلی کے اندرونی حصے میں نظر آ تی تھی۔۔۔

جیسے حویلی کم کوئی پارک زیادہ ہو اتنا سبزہ اتنے درخت اس حویلی کو کی خوبصورتی میں چار چاند لگا  دیتے تھے۔۔۔

 

زمان بہادر احمد خان گاوں کے بڑے  تھے ہر بندہ اپنی اصلاح مشورے کے لیے ان کے پاس آ تا  تھا ۔ وہ بہت نفیس انسان تھے ۔اپنے سے چھوٹوں کو خود اُٹھ کر سلام کرتے۔۔  گاوں کا بچہ بچہ جیسے ان کی گود میں بڑا  ہوا ہو ۔۔۔۔۔۔۔ ہر دل عزیز انسان تھے

 

وہ کہتے ہیں نا ۔۔ "ضرورت سے زیادہ اچھا ہونا ضرورت سے ذیادہ  دشمنی  پیدا کرتا ہے"  گاوں میں مقیم ان کے مخالف کوئی  نا کوئی موقع دیکھتے رہتے تھے ان کو تباہ کرنے کے لیے مگر ۔۔!

 

"اللہ  جیسے چایئے عزت سے نوازے اور جیسے چایئے ذلت و رسوائی اس کا مقدر بنا  دے"

ہمیشہ وہ اپنے عزم میں ناکام  ہوتے اور منہ کی کھاتے،

" مگر ہوا جب رخ بدل لے تو  بڑے سے بڑا  طوفان برپا کرتی ہے "

 

Read Novel


No comments:

Post a Comment

Featured Post

Imran Series, Ankana, Mazhar Kaleem, عمران سیریز, انکانا, مظہر کلیم,

Imran Series, Ankana, Mazhar Kaleem, عمران سیریز , انکانا , مظہر کلیم,   عارف والہ سے افتخار حسین لکھتے ہیں آپ کے ناول انتہائی شوق سے پ...